السلام علیکم، پښتو ویکیپېډیا ته ښه راغلئ! موږ تاسو ته د پښتو ويکيپېډيا د نوي غړیتوب ترلاسه کولو مبارکي وایو او هرکلی مو کوو. موږ (د پښتو ويکيپېډيا ټيم) دلته ستاسو د همکاریو هیله من يو، او هیله لرو چې وکولای شو په ګډه پر دې پروژه کار وکړو. د لوړو څلورو بکسونو څخه چي هره پوښتنه لرئ، نو پر هغه بکس کليک کړئ تاسو به مرسته ترلاسه کړئ، ډاډه اوسئ له تاسې سره به خامخا مرسته کيږي.


-- Af420 اړیکه ۲۱:۰۸, ۱۸ فبروري ۲۰۲۳ (‌‌‌‌نړیوال ‌وخت)

مولانا غلام حضرت حنفی

سمول

مولانا غلام حضرت شہید سیفی حنفی رحمتہ اللہ علیہ۔

مولانا غلام حضرت کا شمار پاکستان و افغانستان کی معروف علمی و روحانی شخصیات اور سلسلہ سیفیہ میں ’’اخندزادہ سیف الرحمن مبارک رحمتہ اللہ علیہ’’ کے اکابر خلفاء میں ہوتاہے۔ 
آپ کا مکمل نام ’’غلام حضرت ‘‘ ولد خواجہ محمد حضرت شہید ؒ ہے۔ 
کنیت ابو العزیز ‘‘ اپنے بڑے بیٹے ’’عزیزالرحمن‘‘ کی نسبت سے اور لقب ’’نابغہ ’‘ (نہایت اعلی ذہنی صلاحیتوں کا مالک ) جو کہ آپ کو آپ کے شیخ کی طر ف سے عطاء ہوا۔ آپ ۱۹۷۴ء میں افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے علاقے ’’ولسوالی خوگیانی ‘‘ پچیرا گام ،گاوں میں پیدا ہوئے۔
آپ نسباً ’’خواجہ ‘‘ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور خواجگان کے نام سے ہی آپ کا خاندان علاقے میں معروف ہے۔ 

٭۔ تعلیم و تربیت ۔

ابتدائی تعلیم اپنے علاقے ننگر ہار ، افغانستان میں ہی حاصل کی ، آپ کے والد’’خواجہ محمد حضرت شہید‘‘ اپنے علاقے کے معروف عالم دین اور صوفی بزرگ تھے۔ آپ نے ابتدائی ناظرہ قرآن والد گرامی سے ہی پڑھا ، اس کے بعد صرف چھے ماہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔
افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور پشاور کے علاقے ’’انقلاب روڈ، سوریزئی ‘‘ میں سکونت اختیار کی۔ 
حفظ قرآن کے بعد ابتدائی علوم و فنون کی کتب ’’جامعہ سیفیہ منڈی کس باڑہ پشاور‘‘ سے پڑھیں ، اس کے بعد ’’جامعہ قاسمیہ ،باجوڑ، مردان،  مہاجربازار پشاور ، اور دارالعلوم اسلامیہ، چار سدہ، میں بھی زیر تعلیم رہے اور درس نظامی اور کتب حدیث کی تکمیل کی ،عصری تعلیم آپ نے ایف۔ اے تک حاصل کی ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ نے تمام مروجہ علوم و فنون کی تکمیل صرف تین سال کے قلیل عرصہ میں کی جو کہ آپ کی انتہائی ذہانت پردلالت کرتی ہے۔

٭۔اساتذہ ۔

آپ کے معروف اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں۔

۱۔ شيخ الحديث مولانا محمد ادريس ترنگزئی ۲۔ شیخ الحدیث روح الامين نثارآبادی ۳۔ شیخ الحدیث مولانا ضياء الله باجوڑی ۴۔ شیخ الحدیث مولانا مصباح الله هزاروی ۵۔ شيخ الحديث محمد سليم حقانی ۶۔ شيخ الحديث مولانا آمين الله باجوڑی ۷. شيخ الحديث قاضی محمد آمين ۸. شيخ الحديث شهاب الدين دلاور ۹. شيخ الحديث غلام فاروق وزيرستانی ٭۔بیعت ۔

زمانہ طالب علمی میں ہی آپ نے ’’حضرت اخندزادہ سیف الرحمن مبارک مجددی رحمتہ اللہ علیہ‘‘ سے بیعت کر لی اور آپ کی ذہانت و ذوق کو دیکھتے ہوئے حضرت مبارک نے قلیل عرصہ میں ہی آپ کو خلافت مطلقہ عطاء کی۔
آپ کے شیخ آپ سے بہت الفت فرماتے، آپ کو ’’نابغہ ‘‘کالقب عطاء کیا ۔نابغہ سے مراد ایسا شخص جو ’’نہایت اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا مالک ہو ‘‘ 
آپ کو بڑا نابغہ اور آپ کے پیر بھائی ’’ مفتی نعمان فضلی کابلی شہید رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کو چھوٹا نابغہ کے لقب سے یاد کرتے ۔

٭۔ درس و تدریس ۔

حصول علم کے دوران ہی آپ نے امامت و خطابت شروع کردی، آپ نے ۲۰ سال کی عمر میں ’’جامع مسجد صدیق اکبر ؒ اخون آباد نمبر۴، پشاور میں منصب امامت سنبھالہ اور تادم وصال ۲۰ سال تک یہی پرامامت و خطاب تکے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 
آپ نے ۱۷ سال تک ہر ماہ رمضان المبارک میں دورہ تفسیر القرآن کا اہتمام کیا جس سینکڑوں افراد شریک ہوتے ، اس دورہ تفسیر کی آڈیو ویڈیو ریکارڈ نگ اب بھی موجود و محفوظ ہے۔ 
۱۳ سال تک مسلسل ’’شرح ملاجامی ‘‘ کی تدریس فرمائی۔ 

۱۲ سال تک مسلسل کورس مناظره تدريس فرمائی ۱۳ سال تک مسلسل رمضان میں دوره تفسير القرآن تدريس فرمائی

۷ سال مسلسل دورہ حدیث کا اہتمام کیا جس میں ہزار وں طلباء شریک ہوتے (۸۲)

٭۔ مقام ادب ۔

درس حدیث کے حوالے سے آپ  بہت زیادہ ادب کا خیال رکھتے ، طلباء کو بغیر عمامہ کے شرکت سے منع کرتے، شرکت سے پہلے غسل اور وضو کی تلقین کرتے، صاف ستھر لباس اور خوشبو کے استعمال کی تلقین کرتے، اور دو رکعات تحیتہ الوضوء کی ادائیگی کی ترغیب دیتے ، ان سب شرائط کی تعمیل کے بعد درس حدیث میں بیٹھنے کی اجازت عطاء کرتے۔

٭۔ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں مقبولیت۔

آپ اس حوالہ سے واقعہ بیان کرتے ہیں کہ

’’مردان کا ایک عاشق رسول ﷺ مدینہ میں مقیم تھا، اور مسجد نبوی میں زائرین کی خدمت کرتا تھا، ایک دفعہ جب چھٹی پر گھر آنے کے لیے ٹکٹ لیا اور واپسی کی تیاری کی تو رات خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت نصب ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا۔

’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم پاکستان جارہے ہو ، خادم نے عرض کی حضور ! چند دنوں کے لیے جارہا ہوں۔ پھر واپس آجاوں گا، پھر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : پاکستان جاکر ادھر ’’مولوی غلام حضرت ‘‘ کے پاس جانا اور میرا سلام پیش کرنا، سلام کے بعد کہنا کہ تم جب درس حدیث کے دوران میرانام آنے پر درود پڑھتے ہو تو تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے لیکن درود میں تم میری آل کو چھوڑ دیتے ہو، میں اپنی آل کے حوالے سے خوش ہوتا ہوں کہ جب کوئی ان کو بھی درود میں شامل کرے۔ لہٰذا تم جب بھی درود پڑھو تو اس میں میری آل کو شامل کرو‘‘

جب اس خادم نے یہ واقعہ مجھے سنایا تو میں نے فوراً درس حدیث کے ریکارڈنگ کو سنا تو واقعی درود پڑھنے میں ’’وآلہ‘‘ کے الفاظ نہ تھے۔ اس کے بعد میں نے اپنی زندگی کا معمول بنا لیا کہ جب بھی درود پڑھتا تو’’وآلہ‘‘ کے الفاظ ضرور شامل کرتا‘‘۔

اس واقعہ سے آپکی بارگاہ رسالت ﷺ میں مقبولیت و قبولیت کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ آپ کس پایہ کے عاشق رسول ﷺ تھے۔ 

٭۔ارشاد و تلقین و علم مناظرہ ۔

 مولانا غلام حضرت شہید بہترین معلم ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مناظر، مقرر، بھی تھے، آپ کے علاقہ میں چونکہ بدعقیدہ افراد کثرت سے تھے تواکثر وبیشتر ان سے مناظرہ ہوتا رہتا ۔ آپ اپنے مخالف کو دلائل کے ساتھ ایسا لاجواب کرتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتا۔ آپ کے مناظرے سے متاثر ہو کر سینکڑوں افراد باطل عقائد سے تائب ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو چکے ہیں۔ 
آپ چونکہ چاروں سلاسل میں اجازت یافتہ تھے آپ کے مریدین کی تعداد بھی اس وقت ہزاروں کی تعداد میں افغانستان و پاکستان میں موجود ہے۔ 
موجودہ افغان طالبان حکومت میں بھی آپ کے شاگردوں اور مریدین کی تعداد کثر ت سے ہے۔ مشهور تلاميذ کے نام درجه ذيل هے .

۱. شيخ الحديث سيد آياز علی شاه سيفی (پشاور) ۲. شيخ الحديث مفتی عبدالحق حنفی (کابل) ۳. شيخ الحديث عبدالخالق فاتح آغا (کوئٹه) ۴. شيخ الحديث صدر الدين حنفی (کابل) ۵. مولانا وحيد الله جرار حنفی (پشاور) ۶. مفتی محمد عسکر سعيدی سيفی (پشاور) ۷. شيخ الحديث حکيم الله صابر حنفی (کوئٹه) ۸. مولانا ثناء الله مظهری بلوچستانی (کوئٹه) ۹. مفتی احمد الرحمن حنفی (صوابی)

٭۔اولاد ۔

۲۳۔ سال کی عمر میں آپ نے نکاح کیا جس سے آپ کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیا ں ہیں۔ محمد عزیز الرحمن سیفی 

لعل الرحمن سیفی ، جو کہ سلسلہ سیفیہ کے معروف نعت خواں بھی ہیں۔ ۔ ابو بکر صدیق سیفی ٭۔شہادت ۔

۱۹۔اگست ۲۰۱۶ء کو آپ اپنے ْجامعہ دارالاحناف ، اخون آباد ، پشاور سے نماز جمعہ و محفل ذکر سے فراغت کے بعد گھر جارہے تھے تو مخالفین کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ بعد ازوصال آپ کی میت کو آبائی علاقے افغانستان منتقل کردیا گیا۔آپ کا مزار ، ارزان قیمت، شهرای بتخاک ، کابل افغانستان میں واقع ہے۔

از قلم: مولوی عنايت الله حنفی از قريه تاروجبہ ضلع نوشھرہ Haroonihanfi (خبرې اترې) ۲۱:۲۳, ۱۸ فبروري ۲۰۲۳ (‌‌‌‌نړیوال ‌وخت)